نماز تہجّد کا وقت کب سے شروع ہوتا ہے اور کب تک رہتا ہے؟

سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ 

 عشاء کی اذان ہورہی تھی نیند آگئی اور پھر پندرہ منٹ کے بعد بیدار ہوے تو اب عشاء کی نماز ادا کرکے فوراً تہجد پڑھ سکتے ہیں؟ 
 مدلل جواب عنایت فرمائیں بہت مہربانی ہوگی
 سائل: محمدجسیم، مقام لہوریا، ضلع سیتامڑھی بہار۔
 
جواب

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
عشا کی اذان ہو رہی تھی اور نیند آگئی، پھر پندرہ منٹ بعد بیدار ہوئے تو اس صورت میں نماز عشا پڑھ کر فوراً تہجّد نہیں پڑھ سکتے۔ کیوں کہ تہجّد کا وقت فرض عشا پڑھ کر سونے کے بعد جب اٹھے اس وقت سے شروع ہوتا ہے اور طلوع فجر تک رہتا ہے۔یعنی نماز تہجد کے لیے فرض عشا کے بعد سونا ضروری ہے۔تو اگر کوئی عشا سے پہلے سو گیا تو اس کا اعتبار نہ ہوگا بلکہ تہجد پڑھنے کے لیے پھر اسے بعد عشا سونا پڑے گا اگر چہ تھوڑی ہی دیر سہی
 لہذا اگر کوئی فرض عشا کے بعد بغیر سوئے نوافل پڑھیں،تو وہ تہجد نہیں کہلائیں گے کہ ابھی اس نے تہجّد کا وقت پایا ہی نہیں حالاں کہ وقت کا پایا جانا شرط اولیں ہے
 

فإذا فات الشرط فات المشروط

 ہاں!وہ نوافل صلاۃ اللیل میں ضرور شمار ہوں گے کہ صلاۃ اللیل تہجد سے عام ہے
رد المحتار معروف بہ فتاویٰ شامی  میں ہے 

و روى الطبراني مرفوعا:« وما كان بعد صلاة العشاء فهو من الليل»
قلت: غير خاف أن صلاة الليل المحثوث عليها هي التهجد
و في معجم الطبراني من حديث الحجاج بن عمرو رضي الله تعالى عنه قال:
« بحسب أحدكم إذا قام من الليل يصلي حتى يصبح أنه قد تهجد، إنما التهجد المرء يصلي الصلاة بعد رقدة.»
أقول: الظاهر أن حديث الطبراني الأول بيان لكون وقته بعد صلاة العشاء، حتى لو نام ثم تطوع قبلها لا يحصل السنة، فيكون حديث الطبراني الثاني مفسرا للأول؛ و لأن التهجد إزالة النوم بتكلف مثل تأثم: أى تحفظ عن الإثم، نعم صلاة الليل و قيام الليل أعم من التهجد

( رد المحتار على الدر المختار ملخصا، كتاب الصلاة، باب الوتر و النوافل، مطلب في صلاة الليل، الجزء الثاني، ص: ٤٦٧ دار عالم الكتب رياض.)
 “فتاویٰ رضویہ شریف  میں ہے عشا کے فرض پڑھ کر آدمی سو رہے پھر اس وقت سے صبحِ صادق کے قریب تک جس وقت آنکھ کھلے دو رکعت نفل صبح طلوع ہونے سے پہلے پڑھ لے تہجد ہوگیا
 تہجد پڑھنے والا جسے اپنے اٹھنے پر اطمینان ہو اسے افضل یہ ہے کہ وتر بعد تہجد پڑھے پھر وتر کے بعد نفل نہ پڑھے جتنے نوافل پڑھنا ہوں وتر سے پہلے پڑھ لے کہ سب قیام اللیل میں داخل ہوں گے اور اگر سونے کے بعد ہیں تو تہجد میں داخل ہوں گے

 (ملخصا فتاویٰ رضویہ غیر مترجم، کتاب الصلاۃ باب الوتروالنوافل، جلد سوم ص: ٤٧١، ٤٧٢، رضا اکیڈمی ممبئی)
 ” بہار شریعت میں ہے صلاۃ اللیل کی ایک قسم تہجد ہے کہ عشا کے بعد رات میں سوکر اٹھیں اور نوافل پڑھیں، سونے سے قبل جو کچھ پڑھیں وہ تہجد نہیں

( بہار شریعت، حصہ: چہارم، سنن و نوافل کا بیان، ج:١، ص: ٦٧٧، مجلس المدینۃ العلمیہ دعوت اسلامی)
 فتاویٰ امجدیہ میں ہے  نماز عشا پڑھ کر سونے کے بعد جب اٹھے تہجد کا وقت ہے، اور یہ وقت طلوعِ فجر تک ہے۔ اور بہتر وقت بعد نصف شب ہے۔ اور اگر سویا نہ ہو تو تہجد نہیں، اگر چہ جو نفل پڑھے جائیں، صلاۃ اللیل انھیں شامل کہ صلاۃ اللیل تہجد سے عام ہے الخ۔“ 

 ( فتاویٰ امجدیہ، جلد اول، کتاب الصلاۃ باب الوتر و النوافل، ص: ٢٤٣، مکتبہ رضویہ کراچی۔)
 نیز ایسا ہی مندرجہ ذیل کتب فتاویٰ میں ہے:
( فتاویٰ اجملیہ، کتاب الصلاۃ، باب التھجد، جلد دوم ص: ٣٦٣، ٣٦٢، شبیر برادرز لاہور۔)
(فتاویٰ علیمیہ، کتاب الصلاۃ، باب النوافل والتراویح، جلد اول ص: ٢٤٦، شبیر برادرز لاہور۔)
(فتاویٰ فقیہ ملت، کتاب الصلاۃ، باب النفل و التراویح، جلد اول ص: ٢٠٣، شبیر برادرز لاہور۔) 
 

واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 


محمد شفاء المصطفى المصباحي

المتدرب على الإفتاء بالجامعة الأشرفيه.   

١٥  / جمادى الاولى ١٤٤٢ھ.

About حسنین مصباحی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *