مشائخ کرام کی شب بیداری اور ساتھ ہی تہجد پڑھنے سے متعلق ایک اہم مسئلہ

سوال

السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
سوال یہ ہے کہ غوث پاک رضی اللہ تعالی عنہ نے چالیس سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز ادا کی، اب یہاں پر سوال یہ ہوتا ہے کہ کیا غوث پاک نے اس چالیس سال کی مدت میں نماز تہجد پڑھی یا نہیں؟ 
کیوں کہ تہجّد کے لیے سونا ضروری ہے اور سونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جب کہ آپ عشا کے وضو سے فجر کی نماز پڑھتے تھے؟؟
 سائل: محمد غضنفر حسین رضوی،  پوکھریرا شریف، ضلع: سیتامڑھی بہار۔ 

جواب

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بلا شبہ حضور پُرنور غوث اعظم سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی قدس سرہ النورانی نے چالیس سال تک عشا کے وضو سے فجر کی نماز ادا فرمائی ہے(1)۔ اسی طرح امام الائمہ کاشف الغمہ سراج الامہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہما نے بھی چالیس سال تک عشا کے وضو سے فجر کی نماز ادا کی ہے(2)۔ نیز اور بھی بزرگوں کے متعلق اس طرح کے واقعات ملتے ہیں۔
مگر ان روایتوں سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان بزرگوں نے اس دوران نماز تہجّد ادا نہ کی۔ اس لیے کہ نماز تہجد کے لیے اگر چہ سونا شرط ہے مگر اس کے لیے با ضابطہ گھنٹوں سونا ضروری نہیں ہے بلکہ تہجد صحیح ہونے کے لیے نیند کا ایک جھونکا اور اونگھ بھی کافی ہے۔ تو یہ ممکن ہے کہ وہ حضرات تہجد کا وقت پانے کے لیے رات کو بیٹھے بیٹھے کچھ اونگھ لیتے رہے ہوں گے، جس سے نماز تہجّد بھی درست ہو جاتی ہے اور وضو بھی نہیں ٹوٹتا۔ کیوں کہ مطلقاً ہر نیند ناقض وضو نہیں ہے بلکہ نیند سے وضو ٹوٹنے کی دو شرطیں ہیں، جب یہ دونوں شرطیں ایک ساتھ پائی جائیں گی تبھی وضو ٹوٹنے کا حکم دیا جائے گا ورنہ نہیں۔
 پہلی شرط یہ ہے کہ اس وقت دونوں سرین اچھی طرح جمے ہوئے نہ ہوں، اور دوسری شرط یہ ہے ایسی حالت پر سویا ہو جو غافل ہوکر نیند آنے میں رکاوٹ نہ بنے ؛ جب یہ دونوں شرطیں ایک ساتھ جمع ہوں گی تبھی وضو ٹوٹنے کا حکم دیا جائے گا۔
 لہذا اگر کوئی پالتی مار کر اس طرح بیٹھا ہو کہ اس کے دونوں سرین خوب اچھی طرح جمے ہوئے ہوں اور وہ اسی طرح بیٹھے بیٹھے کچھ اونگھ لے تو اس کا وضو نہیں ٹوٹے گا۔ 
 مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی اشرفی قدس سرہ فرماتے ہیں:
”تہجُّد سے پہلے سو لینا ضَروری ہے اگر کوئی بالکل نہ سویا تو اس کے نَوافِل تہجُّد نہ ہوں گے۔ جن بزرگوں سے منقول ہے  کہ انھوں نے تیس یا چالیس سال عشا کے وُضو سے فجر کی نماز پڑھی جیسے حضور غوثِ اعظم یا امام اَبُوحنیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا وہ حضرات رات میں اس قدر اونگھ لیتے تھے جس سے تہجُّد دُرُست ہو جائے لہٰذا ان بزرگوں پر یہ اِعتراض نہیں کہ انہوں نے تہجُّد کیوں نہ پڑھی ۔  
حضرت اَبُوالدرداء ، اَبُوذَرغفاری وغیرہم صحابہ  رِضْوَانُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن جو شب بیدار تھے ان کا بھی یہی عمل تھا

 (مرأت المناجیح، جلد دوم، باب صلاۃ اللیل، ص:۲۱۷، مطبوعہ نعیمی کتب خانہ ۔) 
 “فتاویٰ علیمیہ” میں ہے:
” نماز عشا کے بعد سو جائیں پھر اٹھ کر تہجد پڑھیں اب جو بھی نفل پڑھیں تہجّد ہوگی اور جن بزرگوں کے متعلق شب بیداری کرنے کے ساتھ ساتھ تہجّد پڑھنے کے واقعات ملتے ہیں، ان حضرات کا یہی حال تھا کہ نماز عشا کے بعد تھوڑی ہی دیر سہی سو رہتے تھے؛ پھر اٹھ کر نوافل ادا کرتے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ ان کا سونا ایسی حالت پر ہوتا کہ جس میں وضو ٹوٹنے کا حکم نہیں لگایا جا سکتا تھا

(فتاویٰ علیمیہ، کتاب الصلاۃ، باب النوافل و التراویح، جلد اول، ص: ۲۴۶، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور۔)
 کس طرح سونے سے وضو ٹوٹتا ہے اور کس طرح سونے سے نہیں، اس کے متعلق ابو حنیفہ ہند سیدنا امام احمد رضا خان قدس سرہ فرماتے ہیں:
” نیند دو شرطوں سے ناقضِ وضو ہوتی ہے ان میں سے ایک بھی کم ہو تو وضو نہ جائے گا۔
اول یہ کہ دونوں سرین اس وقت خوب جمے نہ ہوں۔ دوسرے یہ کہ ایسی ہیأت پر سویا ہو جو غافل ہوکر نیند آنے کو مانع نہ ہو۔ جب یہ دونوں شرطیں جمع ہوں گی تو سونے سے وضو جائے گا اور ایک بھی کم ہے تو نہیں۔
مثلاً:(۱) دونوں سرین زمین پر ہیں اور دونوں پاؤں ایک طرف پھیلے ہوئے کرسی کی نشست اور ریل کی تپائی بھی اس میں داخل ہے۔
أقول: مگر یورپین ساخت کی کرسی جس کے وسط میں ایک بڑا سوراخ اسی مہمل غرض سے رکھا جاتا ہے اس سے مستثنٰی ہے اس کی نشست مانع حدث نہیں ہو سکتی۔
(۲) دونوں سرین پر بیٹھا ہے اور گھٹنے کھڑے ہیں اور ہاتھ ساقوں پر محیط ہیں جسے عربی میں ”احتبا“ کہتے ہیں خواہ ہاتھ زمین وغیرہ پر ہوں اگرچہ سر گھٹنوں پر رکھا ہو۔(۳) دو زانو سیدھا بیٹھا ہو۔ (۴) چار زانو پالتی مارے ۔یہ صورتیں خواہ زمین پر ہوں یا تخت یا چارپائی پر یا کشتی یا شقدف یا شبری یا گاڑی کے کھٹولے میں۔الخ“
( ان مذکورہ بالا چاروں صورتوں میں وضو نہیں ٹوٹے گا۔) 

 ( فتاویٰ رضویہ غیر مترجم، جلد اول، کتاب الطھارۃ، باب الوضو، ص: ۷۱، رسالہ: ” نبه القوم أن الوضوء من أي نوم “ رضا اکیڈمی ممبئی۔) 
 “بہار شریعت” میں ہے:
  ”  اونگھنے یا بیٹھے بیٹھے جھونکے لینے سے وضو نہیں جا تا۔“

 ( بہار شریعت جلد اول، حصہ:۲، وضو کا بیان، ص: ۲۰۸، مجلس المدینۃ العلمیہ دعوت اسلامی۔)
 فائدہ جلیلہ:
فقیہ فقید المثال سیدنا امام احمد رضا خان قدس سرہ نے خاص اسی مسئلہ پر کہ کس طرح سونے سے وضو ٹوٹتا ہے اور کس طرح سونے سے نہیں ٹوٹتا، ایک رسالہ نافعہ تحریر فرمایا ہے، جس کا تاریخی نام یہ ہے:
”نبه القوم أن الوضوء من أي نوم“ ( ۱۳۲۵ھ)
یہ رسالہ، فتاویٰ رضویہ قدیم، (جلد اول کتاب الطھارۃ باب الوضو، ص: ۷۰ تا ۹۴) پر ہے۔ اور فتاویٰ رضویہ جدید،( جلد اوّل، ص: ۳۶۵ تا ۴۳۸) پر ہے۔ ارباب ذوق ضرور مطالعہ فرمائیں۔
حوالہ:
 [1] ( بھجة الاسرار ، ذکر طریقه ، ص:۱۶۴،  دارالکتب العلمية  بیروت ۔)
[2] ( الخیرات الحسان ، الفصل الرابع عشر : في شدة إجتهاده في العبادة ، ص: ۸۳، ناشر: طلبہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور۔)
 
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 


محمد شفاء المصطفى المصباحي


المتدرب على الإفتاء بالجامعة الأشرفيه. / 

About حسنین مصباحی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *