مدرسہ کی رسید پر چندہ کر کے تعمیر مسجد میں لگانا کیسا ہے؟

سوال

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
 کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مدرسہ کی رسید پر فطرہ اور زکوٰۃ کا چندہ کر کے مسجد کی تعمیر میں لگانے کی کوئی سبیل ہے یا نہیں ؟ 
 اگر ہے تو رہنمائی فرمائیں
 سائل محمد فرید بہرائچ شریف یوپی
 
جواب


الجواب بعون الملك الوھاب اللهم ھدایۃ الحق والصواب

 وعليكم السلام ورحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ
 رسید سند ہوتی ہے جب مدرسہ کی رسید پہ چندہ کیا جاتا ہے تو لوگ مدرسے ہی کی نیت سے دیتے ہیں.اب اسے مسجد میں لگانا گویا وقف میں تغییر کرنا ہے اور وقف کی تغییر جائز نہیں فلہذا تعمیر مسجد میں لگانے کی اجازت نہیں
 فتاویٰ ہندیہ میں ہے
لا یجوز تغییر الوقف عن ھیأته

(فتاویٰ ہندیہ کتاب الوقف)

ہاں اس کی ایک سبیل یہ ہو سکتی ہے کہ چندہ کرتے وقت لوگوں کو بتا دیا جائے کہ مسجد کے لئے چندہ کر رہے ہیں تو اس صورت میں لگا سکتے ہیں 
 نوٹ صدقات واجبہ کی رقم بغیر حیلۂ شرعی کے مسجد و مدرسہ میں نہیں لگ سکتی.اور حیلۂ شرعی کے ذریعہ بھی اس وقت لگائی جائے جبکہ ضرورت شرعیہ ہو ورنہ جائز نہیں ہے کہ حق فقراء و مساکین ہے
 
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب 

محمد ذیشان مصباحی غفر لہ

دلاور پور محمدی لکھیم پور کھیری یوپی انڈیا

 ٥/رجب المرجب ١٤٤٢ھ

About حسنین مصباحی

Check Also

گورنمنٹ کے پیسے سے مسجد بنانا کیسا ہے؟

سوال السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  علماء کرام کی بارگاہ میں ایک سوال ہے کہ …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *