السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ بدعت لغوی اور بدعت شرعی کے کیا معنی ہیں اور بدعت کی کتنی قسمیں ہیں؟
برائے کرم قرآن و حدیث اور عبارات فقہائے کرام کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں
المستفتی:علی حیدر
ملک پاکستان صوبہ بلوچستان ضلع نصیر آباد ڈیرہ مراد جمالی
ملک پاکستان صوبہ بلوچستان ضلع نصیر آباد ڈیرہ مراد جمالی
جواب
الجواب بعون الملك الوھاب اللهم ھدایۃ الحق والصواب
وعليكم السلام ورحمۃ اللہ تعالیٰ وبرکاتہ
بدعت کا لغوی معنی ہے ”نئی چیز، انوکھی چیز، بغیر نمونہ کے بنائی گئی چیز.
ارشاد باری تعالیٰ ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے
بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ
وہ بغیر کسی سابقہ مثال کے آسمانوں اور زمین کو نیا پیدا کرنے والا ہے
وہ بغیر کسی سابقہ مثال کے آسمانوں اور زمین کو نیا پیدا کرنے والا ہے
اصطلاح شرع میں بدعت کہتے ہیں ”ایسے کام کو کہ جس کی شرع میں کوئی اصل نہ ہو
فتح الباری میں ہے
والمحدثات”بفتح الدال جمع محدثة،والمراد بھا:ما أحدث ولیس له أصل في الشرع؛ ویسمی في عرف الشرع:بدعة،وما کان له أصل یدل علیه الشرع فلیس ببدعة
کتاب الاعتصام باب الاقتداء بسنن رسول اللہ ﷺ الجزء الرابع والعشرون /ص:١٦/تحت الحدیث :٢٢٧٧/ الرسالة العالمیہ
بدعت کی دو قسمیں ہیں
١ بدعت محمودہ (حسنہ)ایسا نیا کام جو قرآن و سنت کے مخالف نہ ہو جیسے کہ مدارس قائم کرنا وغیرہ
٢ بدعت مذمومہ(سئیہ)ایسا نیا کام جو قرآن و سنت کے مخالف ہو جیسے کہ اردو میں اذان دینا وغیرہ
فتح الباری میں ہے
قال الشافعي:البدعة بدعتان: محمودۃ ومذمومة فما وافق السنة فھو محمودۃ وما خالفھا فھو مذموم،أخرجه أبو نعیم بمعناہ من طریق إبراھیم بن الجنید الشافعي
کتاب الاعتصام باب الاقتداء بسنن رسول اللہ ﷺ الجزء الرابع والعشرون /ص:١٧/تحت الحدیث ٢٢٧٧/الرسالة العالمیہ
بدعت کی یہی دو قسمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مندرجہ ذیل فرمان سے مستفاد ہیں
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من سن في الإسلام سنة حسنة فعمل بھا بعدہ کتب له مثل أجر من عمل بھا ولا ینقص من أجورھم شيئ ومن سن في الإسلام سنة سئیة فعمل بھا بعده کتب علیه مثل وزر من عمل بھا ولا ینقص من أوزارھم شیئ
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ رائج کیا پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو اس کے لئے اس عمل کرنے والے کے برابر ثواب لکھا جائے گا اور ان کے ثواب میں سے کچھ کمی نہ کی جائے گی اور جس آدمی نے اسلام میں کوئی برا طریقہ رائج کیا پھر اس پر عمل کیا گیا تو اس پر اس عمل کرنے والے کے گناہ کے برابر گناہ لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہ کی جائے گی۔
مسلم شریف کتاب العلم حدیث نمبر ٦٧٩٠
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
محمد ذیشان مصباحی غفر لہ
دلاور پور محمدی لکھیم پور کھیری یوپی انڈیا
٣/رجب المرجب ١٤٤٢ھ